طریقت ، تصوف اور احسان (صوفی اسلام) کی تشریح و ثبوت قرآن الکریم کی تعلیمات کی روشنی میں
|شریعت کا تعلق ان امور اور احکام سے ہے جن سے انسان کی ظاہری زندگی کی تشکیل ہوتی ہے جبکہ طریقت کا تعلق ان روحانی لذات اور معنوی کیفیات سے ہے جو بندہ مومن کے دل پر اثر پزیر ہوتی ہیں۔ جب اتباع رسولﷺ صرف ظاہر تک محدود رہے تو یہ شریعت کہلاتی ہے مگر جب بندہ مومن کا باطن نورانیت مصطفےﷺ سے بھی منور ہو جائے تو یہ طریقت کہلاتی ہے۔گویا کہ شریعت پھول ہے اور طریقت اس کی خوشبو، شریعت بیان ہے اور طریقت مشاہدہ، شریعت صورت ہے اور طریقت حقیقت ، شریعت جسم ہے اورطریقت روح۔شریعت و طریقت اپنی اپنی مستقل حیثیت رکھنے کے باوجود باہم لازم و ملزوم ہیں ان میں جدائی اور دوری اسلام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے جیسا کہ آج ہمارا معاشرہ اس افتراق کی وجہ سے زوال اور بے چینی کا نمونہ پیش کر رہا ہے۔ قرآن مجید سے طریقت کی وضاحت پیش خدمت ہے تا کہ شکوک و شبہات رفع ہو جائیں۔
آیت مبارکہ نمبر1
اے ہمارے رب ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام فرمایا۔ سورۃ الفاتحہ، پ ۱، آیت نمبر ۵ تا ۶
اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام محمدفخر الدین رازیؒ فرماتے ہیں کہ اس دعا میں اشارہ ہے کہ انسان صراط مستقیم پر نہیں چل سکتا جب تک اس راہ پر چلنے والے سابقہ لوگوں کی اتباع نہ کرے۔ اس راہ پر چلنے کے لیے صرف کتابوں کی ورق گردانی کام نہیں دے سکتی۔ اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ مرید طالب کے لیے ہدایت کے مقامات اور مکاشفات تک پہنچنے کا اس کے بغیر کوئی ذریعہ نہیں کہ کسی شیخ کامل کی اقتداء کرے جو اس کی رہنمائی کرے گا اور اسے غلطیوں اور گمرائیوں سے بچائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس اکثر مخلوق پر غالب ہے اور صرف عقل انسانی ادراک حقیقت کے لیے ناکافی ہے۔ اور حق و باطل میں کما حقہ تمیز کر لینا عقل انسانی کے بس کی بات نہیں۔ لہذا یہ ضروری ٹھہرا کہ شیخ کامل کی تلاش کرے اور اس کی اقتداء کرے تاکہ اس ناقص کی عقل کامل کے نور عقل سے کامل بن جائے اور ناقص سعادت کے مدارج اور کمال کے عروج تک پہنچ سکے۔ تفسیر کبیر
اس آیت مبارکہ کی تفسیر سے واضح ہوا کہ صراط مستقیم پر چلنے کے لیے کامل اولیاء کی اتباع ضروری ہے صرف کتابوں کے مطالعہ سے ہدایت یافتہ ہونا نا ممکن ہے۔ اپنے محبوب حقیقی اللہ تعالی رب العزت کے قرب اور معرفت کو پانے کے لیے کاملین کے نور سے فیض یابی بے حد ضروری ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت امداد اللہ مہاجر مکیؒ فرماتے ہیں : اس سے مراد انبیاء کرام اور اولیاء عظام کا راستہ ہے۔ کلیات امدادیہ
آیت مبارکہ نمبر 2
اور وہ (رسول اللہﷺ)تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم بتاتے ہیں اور وہ کچھ سکھاتے ہیں جو تم نہیں جانتے۔ سورۃ البقرہ ، پ ۲، آیت ۱۵۱
اس آیت کی تفسیر میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ فرماتے ہیں یُعَلِّمُکُمْ کو دو دفعہ ذکر فرمانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسری تعلیم اور قسم کی ہے تو ممکن ہے اس دوسری تعلیم سے مراد علم لدنی ہو کہ جو ظاہر قرآن سے ماخوذ نہیں ہے بلکہ باطن قرآن اور سینہ باسینہ جناب رسول کریمﷺ سے حاصل کیا جاتا ہے اور اس نور کو انعکاس سے حاصل کیا جاتا ہے اس کے علاوہ اس نور کو حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں اور اس کی حقیقت کا ادراک بعید از قیاس ہے چنانچہ رئیس صدیقین حضرت ابو بکرؓ فرماتے ہیں کہ ادراک کے ادراک سے عاجزہونا ہی ادراک ہے۔ تفسیر مظہری
تفسیر ضیاء القرآن میں بھی اسطرح کا مفہوم بیان کیا گیا ہے۔
آیت مبارکہ نمبر 3
جو کچھ تمھارے دلوں کے اندر ہے اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تعالی تم سے اس کا حساب لے گا۔سورۃ البقرہ، پ ۳ ، آیت ۲۸۴
انسان کی نفسانی اور قلبی بیماریاں بہت ہیں جیسے نفاق، دکھاوٹ، بے جا تعصب، حب دنیا، غصہ، غرور، آرزو، حرص، ترک توکل، ترک صبر، حسد اور کینہ وغیرہ۔ اس کے تحت صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں رزائل نفس کا مواخذہ اعمال بدینہ کے مواخذہ (حساب)سے زیادہ سخت ہے اور طاقت سے زیادہ آدمی مکلف نہیں ہے تو اگر بندہ اپنی امکانی کوشش کرے اور مجاہدہ نفسانی کے ذریعے امراض نفسانی کو دور کرنے کی جدو جہد کو کام میں لائے اور خواہش نفس کے پیچھے نہ پڑے اور رزائل نفس کو دور کرنے کے لیے فقراء کے دامن سے وابسطہ ہو جائے تو امید ہے اللہ تعالی اس کے اندرونی معاصی معاف فرما دے گا۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ صوفیہ کے طریقہ پر چلنا اور فقراء کے دامن سے وابسطہ ہونا ایسا ہی فرض ہے جیسے کتاب اللہ کی تلاوت اور انکے احکام کو سیکھنا۔
آیت مبارکہ نمبر 4
اللہ تعالیٰ نے بلاشبہ مومنوں پر بہت بڑا احسان فرمایا جب ان ہی میں سے اپنا رسول(ﷺ) بھیجا جو ان پر اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کے نفوس کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔سورۃ آل عمران ، پ ۴، آیت۱۶۴
اس آیت مبارکہ سے حضورنبی کریمﷺ کے درج ذیل اوصاف ظاہر ہوتے ہیں۔
تلاوت آیات ، تزکیہ نفس ، تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت
تلاوت آیات اور تعلیم کتاب کے حوالے سے آپﷺ کا فریضہ شریعت ہے جبکہ تزکیہ نفس اور تعلیم حکمت کا فریضہ طریقت ہے۔ تفسیر منھاج القرآن جلد اول
آیت مبارکہ نمبر 5
بے شک جس نے نفس کو صاف کیا کامیاب رہا اور جس نے میلا کیا ناکام رہا۔ سورۃ الشمس ، پ ۳۰، آیت ۹تا ۱۰
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا میں نے خود سنا کہ سیدنا حضورﷺ اس آیت کی تشریح میں فرما رہے تھے وہ نفس کامیاب ہو گیا جس کو اللہ تعالی نے پاک کر دیا ۔ بحوالہ تفسیر مظہری
مسلم۔ ترمذی نسائی اور ابن ابی شیبہؓ نے حضرت زیدؓ بن ارقم کی مرفوع روایت نقل کی ہے کہ محبوب خداﷺ نے فرمایا: الہی میں تیری پناہ چاہتا ہوں بے بسی سے ،سستی سے ، بزدلی سے ،زیادہ بڑھاپے سے اور عذاب قبر سے۔ الہی میرے نفس کو تقویٰ و طہارت عطا فرما تو سب سے بڑھ کر نفس کو پاک کرنے والا ہے۔ تو نفس کا کارساز اور مولیٰ ہے۔ الہی میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس علم سے جو فائدہ بخش نہ ہو، اس دل سے جو خشوع والا نہ ہو، اس نفس سے جو سیر نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ تفسیر مظہری میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر اسطرح فرماتے ہیں کامیاب ہوا وہ شخص جس کے نفس کو اللہ تعالیٰ نے پاک کر دیا۔ جس نفس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفاتی جلوہ پاشیوں کے ذریعہ سے رزائل سے پاک کر دیا یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے رضا مند ہو گیا اس کی یاد اور اطاعت سے اطمینان اندوز ہو گیا اور اس کی ممنوعات سے اور ان تمام امور سے جو اللہ تعالیٰ سے روکنے والے ہیں مجتنب بن گیا وہی کامیاب ہوگیا ۔ تفسیر مظہری
حضرت حسن بصریؒ نے آیت مبارکہ کا مطلب اس طرح بیان کیا کہ جس شخص نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اس کو صالح بنا لیا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر آمادہ کر لیا وہ کامیاب ہو گیا۔
آیت مبارکہ نمبر 6
اللہ تعالیٰ کے راستے میں کوشش کرو جیسی کوشش کرنے کا حق ہے.سورۃ الحج ، پ ۱۷، آیت ۷۸
اس آیت کی
تفسیر میں مقاتل اور ضحاک نے کہا اللہ کے لیے کام کرو جیسا کہ کام کرنے کا حق ہے
اور اس کی عبادت کرو جیسا کہ عبادت کا حق ہے۔
حضرت عبداللہ بن مبارک نے کہا نفس اور
نفسانی وسوسوں سے جہاد کرنا ہی جہاد اکبر اور حق جہاد ہے۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ فرماتے ہیں اس آیت میں جہاد سے مراد صرف کفار سے جنگ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ رفتا رآیت اس تحصیص کے خلاف ہے بلکہ اس سے مراد تمام گفتار، رفتار اور اطوار میں اخلاص کا پیدا کرنا ہے۔ اخلاص اسی وقت حاصل ہو گا جب نفس اور خواہشات نفس کی مخالفت کی جائے کیونکہ جب تک دل کی صفائی نہ ہو اور نفس کو فنا نہ کر دیا جائے اس وقت تک اخلاص کا حصول ممکن نہیں۔ دل کی صفائی اور فناء نفس اس وقت ممکن ہے جب نفس امارہ اور اس کی خواہشات سے جہاد کیا جائے لیکن اس کے ساتھ مشکوۃ نبوت سے نور چینی بھی لازم ہے کیونکہ نور مصطفویہﷺ کے بغیر دل کی صفائی اور نفس کی فنا نہیں ہوتی۔ اسی کو اصطلاح میں سلوک اور جذبہ کہا جاتا ہے۔ جبکہ قدماء مفسرین کے اقوال میں اسی کو اخلاص کہا گیا ہے۔ صوفی جب نفس کو فنا کر دیتا ہے اور دل کی صفائی اس کو حاصل ہو جاتی ہے تو اس کا شمار مخلصین میں ہو جاتا ہے۔ اس وقت وہ کسی کے برا کہنے کی پروا نہیں کرتا اور بغیر ریاکاری اور شہرت طلبی کے خالص نیت کے ساتھ لوجہ اللہ اپنے رب کی عبادت کرتا ہے۔ ہر دم اس کی فرمان برداری اور اطاعت کرتا ہے۔ وہ کبھی نافرمانی نہیں کرتا وہ نمونہ اطاعت بن جاتا ہے در حقیقت یہی جہاد اکبر ہے۔ کافروں سے لڑنا تو جہاد کی ایک ظاہری شکل ہے بلکہ تمام عبادتیں جہاد کی صورتیں ہیں اگر خالص لوجہ اللہ نہ ہوں۔ تفسیر مظہری
حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے تمام اعمال نیت کے ساتھ ہوتے ہیں ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو گی پس جس شخص نے اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے لیے گھر بار اور وطن چھوڑا تو اس کی ہجرت اللہ اور رسولﷺ کی طرف ہو گی اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اس چیز کے لیے ہو گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہوگی۔ بخاری شریف
اسی طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی فرماتا ہے میں سب شریکوں سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہوں۔ جس نے کوئی (نیک) عمل کیا اور میرے ساتھ دوسرے کو بھی اس میں شریک کر لیا تو میں اس عمل سے بیزار ہوں۔ اس کا یہ عمل اسی کے لیے ہو گا جس کے لیے اس نے کیا۔ مسلم شریف
آیت مذکورہ کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ حق جہادہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی پوری طاقت لگا دینا اور اللہ تعالی کے دین میں کسی برا کہنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنا ہی حق جہاد ہے۔ تفسیر ابن عباس
آیت مبارکہ نمبر 7
جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔سورۃ العنکبوت پ ۲۱، آیت ۶۹
جو لوگ محبت الہی کے غلبہ کی وجہ سے مجاہدے اور ریاضتیں کرتے ہیں تا کہ انہیں اللہ تعالی کی معرفت اور رضا حاصل ہو جائے تو ان لوگوں کے لیے وہ مہربان اور کریم ذات قرب کے راستے کھولنے کی خوشخبری دیتی ہے تا کہ طالبین حق سبحانہ، اپنی امید پورا ہونے کا یقین پیدا کر لیں اور ہمت و استقامت سے قرب کی منزلین طے کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
آیت مبارکہ نمبر 8
کیا تو نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا۔سورۃ الفرقان ، پ ۱۹، آیت ۴۳
اللہ تعالی کی توحید کا تقاضا ہے کہ اسی کو معبود بر حق تسلیم کرتے ہوئے اسی کی عبادت و بندگی کی جائے۔ اللہ تعالی کے علاوہ کسی کی عبادت کرنا شرک ہے خواہ وہ حضرات انبیاء کرام یا اولیاء و ملائکہ ہوں۔ سورج کی پرستش کی جائے یا آگ کی یاپھر کسی بت یا پتھر کی پوجا کی جائے، شرک ہو گی۔ اسی طرح کسی شحص یا قبر کو سجدہ کرنا بھی حرام ہے۔ آیت مذکورہ میں ان تمام چیزوں کی نفی ہے جو رب ہونے کا دعوی کرتے ہیں مثلا نفس و شیطان اور ہوائے نفسانی اور شہوت۔ اس آیت میں باطنی شرک کی طرف اشارہ ہے کہ خواہشات نفسانی بھی معبود کے درجے کو پہنچ جاتی ہیں۔ اس پوشیدہ شرک سے بچنا صرف تزکیہ نفس حاصل کر کے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ جب انسان زبان سے تو معبود بر حق اللہ تعالی کو تسلیم کرے مگر عملا خواہشات کو معبود بنایا ہوا ہو تو انسان کو لازمی طور پر سوچنا چاہیے وہ کس درجہ کی توحید پر قائم ہے اسے خودساختہ خول سے باہر آکر اولیاء کے دامن سے خالص توحید کی خوشبو سونگھنے میں ایک لمحہ کی بھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :جب کسی کی خواہشات اس دین کے تابع نہ ہو جائیں جو میں لایا ہوں اس وقت تک وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ رواہ النودی
آیت مبارکہ نمبر 9
قرآن مجید کو ہاتھ نہ لگاہیں مگر پاک و صاف لوگ ۔ سورۃ الواقعۃ، پ ۲۷، آیت ۷۹
جس طرح قرآن مقدس کو چھونے کے لیے ظاہری طہارت و پاکیزگی ضروری ہے اسی طرح قرآن کے انوارات کو اپنے اندر جذب کرنے اور سمونے کے لیے باطنی طہارت لازمی ہے۔ اس کی وضاحت ایک دوسری آیت قرآنی میں اسطرح ہے:۔
ارشاد فرمایا: آسمان سے پانی اتارا جس سے وادیاں سیراب ہوتی ہیں۔ سورۃ رعد، پ ۱۳ آیت ۱۷
حضرت عبداللہ بن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ پانی سے مراد قرآن ہے اور وادیاں قلوب ہیں۔ تفسیر ابن عباس
حضرت امام غزالیؒ نے بھی فرمایا پانی سے مراد قرآن اور وادیاں قلوب ہیں۔ احیا ء العلوم
قرآنی انوارات و کیفیات کو صرف صاف و مصفا دل ہی اپنے اندر جزب کر سکتے ہیں۔ لہذا قرآنی فیوض و برکات کو سمیٹنے کے لیے روحانی دنیا میں قدم رکھنا ضروری ہے ۔
جیسا کہ حضرت شیح قطب الدین دمشقی ؒ فرماتے ہیں کہ روحانی تزکیہ و تصفیہ اولیاء کرام کے مروجہ سلوک سے ہی حاصل ہوتا ہے اس کے لیے اولیاء کرام سے تربیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ارشاد الملوک
اس آیت مبارکہ کی وضاحت میں بغوی نے لکھا ہے کہ محمد بن فضل کے نزدیک مطھرون سے مراد موحد ہیں۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ فرماتے ہیں کہ صوفیہ کی اصطلاح میں موحد اس شخص کو کہتے ہیں جس کا مقصود سواء اللہ تعالی کے اور کوئی نہ ہو۔ تفسیر مظہری
حضرت مجددالف ثانیؒ نے فرمایا جو تیرا مقصود ہے وہی تیرا معبود ہے کیونکہ مقصود حاصل کرنے کے لیے آدمی ہر ذلت، مشقت اور فردتنی کو برداشت کرتا ہے اور تعبد کا یہی معنی ہے۔
اسی طرح بیضاوی نے لکھا کہ انتہائی فردتنی اور غایت تضرع کو عبادت کہتے ہیں۔ (تفسیر بیضاوی) صاحب تفسیر مظہری نے مطھروں سے مراد صدیق لیا ہے جو ولایت کا حاصل ہوتا ہے۔تفسیر مظہری
حضرت مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں فنائے نفس کے بغیر قرآنی برکات حاصل نہیں ہوتیں اور فنائے نفس جذب و سلوک سے وابسطہ ہے۔ اس کے درجات ،قرب کی طرف ترقی ،قرأ ت قرآن سے وابستہ ہے۔ مکتوبات امام ربانی
آیت مبارکہ نمبر10
اے ایمان والے لوگو! تقوی اختیار کرو اور اللہ تعالی کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرو (اللہ تعالی کے دشمنوں سے خواہ وہ نفس ہو یا شیطان یا کفار۔ سورۃ المائدہ ، پ ۶، آیت ۳۵
ترجمان القرآن سیدنا حضرت ابن عباسؓ اپنی تفسیر میں وسیلہ کا معنی تقرب الہی کیا ہے۔ (تفسیر ابن عباس) حاکم نے حضرت خذیفہؓ کا قول نقل کیا ہے کہ وسیلہ کا معنی تقرب ربانی ہے۔
علامہ نعیم الدین مراد آبادی نے بھی وسیلہ کا معنی تقرب الی اللہ ہی کیا ہے۔ تفسیر خزائن العرفان
اس آیت کی تفسیر میں اعلی حضرت امام اہل سنت حضرت شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی ؒ فرماتے ہیں اللہ تعالی عزوجل تک بے وسیلہ رسائی محال قطعی ہے اور آپﷺ تک رسائی بے وسیلہ دشوار ہے۔ کنز الایمان و بیعت و خلافت
علامہ رشید احمد گنگوہی نے بھی وسیلہ سے مراد ولی اور شیخ لیا ہے اور آیت مذکورہ کو ضرورت شیخ کے لیے بطور دلیل پیش کیا۔ امداد السلوک
اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اس آیت کریمہ میں مذکورہ وسیلہ سے مراد بیعت مرشد لیا ہے۔
شاہ اسماعیل دہلوی نے بھی وسیلہ سے مراد مرشد لیا ہے۔
شیح الاسلام علامہ محمد طاہرالقادری نے بھی وسیلہ سے مراد شیح کامل ہی بیان فرمایا ہے۔ تفسیر منہاج القرآن
الصاوی علی تفسیرالجلالین کے حاشیہ پر اس آیت کی تفسیر اس طرح بیان ہوئی ہے: وسیلہ وہ چیز ہے جو اللہ تعالی کے قرب کا سبب ہوتی ہے۔ اس میں اللہ تعالی کے انبیاء اور اولیاء کرام کی محبت، صدقات، اللہ تعالی کے محبوبوں کا دیدار، کثرت عبادت صلہ رحمی اور کثرت ذکر سب شامل ہے۔
اور اللہ کے راستے میں جہاد کرو اس میں اشارہ ہے کہ جہاد سب سے بڑی اطاعت ہے، اور اس کی دو اقسام ہیں، (1) چھوٹا جہاد وہ مشرکین سے لڑائی کرنا ہے مشرکین سے لڑائی چھوٹا جہاد اس لیے ہے کہ دشمن کبھی سامنے ہوتا ہے اور کبھی غائب، اور جب تجھے کافر قتل کرے تو تو شھید ہو گا اور اگر تو کافر کو قتل کرے تو تُو سعید ہو گا۔ (2)نفس کے خلاف اس لیے کہ نفس تجھ سے کبھی غائب نہیں ہوتا اور جب نفس تجھے قتل کر دے تو تُو بدبخت ہو جائے گا۔ ہم اللہ تعالی سے سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔ حاشیہ الصاوی علی تفسیر الجلالین، ص ۴۹۷
اس تفسیر سے یہ بات واضح ہوتی ہے اللہ تعالی انبیاء کرام اور اولیاء کی محبت اور ان کا دیدار ، رب العلمین کے قرب کا وسیلہ ہے۔ اسی طرح اعمال صالحہ بھی قرب کا سبب ہیں۔ دوسرے بات یہ ظاہر ہوئی کہ مسلمان کے لیے نفس کا خطرہ اور ضرر بہت زیادہ ہے۔
حضرت علامہ اسماعیل حقیؒ اس آیت مبارکہ کی تفسیر اس طرح بیان فرماتے ہیں: اور تو جان لے اس آیت مبارکہ میں بڑی وضاحت سے وسیلہ پکڑنے کا حکم ہے اور یہ بہت ضروری ہے اور اللہ تعالی تک پہنچنا بغیر وسیلہ کے نا ممکن ہے اور یہ وسیلہ علماء حقیقت اور مشائح طریقت ہیں۔ تفسیر روح البیان
حضرت حافظ سعدی شیرازیؒ فرماتے ہیں کہ قرب الہی کے مراحل بغیر مرشد کے طے کرنا خود کو گمراہی کے خطرات میں ڈالنا ہے اس لیے مرشد کامل کی رہنمائی ضروری ہے۔
حضرت علامہ اسماعیل حقیؒ اس کی مزید وضاحت ارشاد فرماتے ہیں کہ اس میں مرشد کی طرف اشارہ ہے اور یہ انبیاء اور اولیاء (کے وسیلہ ہونے ) پر دلیل ہے کہ اس طرح نفس سے حفاظت حاصل ہوتی ہے اور حجابات اٹھتے ہیں اور طالب (مرید) رب العلمین تک پہنچتا ہے۔ تفسیر روح البیان
حضرت اسماعیل حقیؒ اللہ تعالی تک وصول کے لیے انبیاء اور اولیاء کے واسطے کو لازمی قرار دیتے ہیں کیونکہ عام مسلمان اور اللہ تعالی کے درمیان حجابات کے اٹھانے کے لیے انبیا ء عظام اور اولیاء کرام کے باطنی انوارات اور توجہات کی اشد ضرورت ہے .تفسیر روح البیان
حضرت شیح شازلیؒ جو کاملین اولیاء کرام میں سے ہیں فرماتے ہیں روحانی دنیا میں قدم رکھنے کے ابتدائی دنوں میں میں اور میرا ایک دوست ایک غار میں چلے گئے اور وہاں اللہ تعالی کی یاد شروع کر دی تا کہ اللہ تعالی اور ہمارے درمیان حجابات (پردے) اٹھ جائیں اور ہمیں اللہ تعالی کا قرب نصیب ہو جائے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہر رات کو ہماری یہ امید ہوتی تھی کہ کل صبح ہمارے باطنی پردے اٹھ جائیں مگر ایسا نہ ہوتا تھا۔ ایک دن اچانک ایک لمبے قد والی شخصیت غار میں داخل ہوئی اور سلام کیا ہم نے ان سے عرض کی آپ کا کیا حال ہے اس شخصیت نے جواب دیا میرا حال دریافت کرتے ہو اور خود نفس کی سرکشی اور بغاوت کی حالت میں رہتے ہوئے تم کس طرح واصل بحق ہو سکتے ہو وہ شخص جو نفس کے نقصان سے آزاد نہیں ہوا اور اللہ تعالی کی عبادت کا دعوی کرتا ہے اس کی عبادت خالص نہیں ہے۔ اس شخصیت کی روحانی توجہات اور ملاقات سے ہمارے حجابات (پردے) اٹھ گئے وہ شخصیت ایک ولی اللہ تھے حضرت شیخ شازلیؒ فرماتے ہیں ہمارے باطنی پردے ذاتی عبادات اور مجاہدات سے نہیں ہٹ سکے بلکہ اس ولی اللہ کے سینہ کے نور سے ہمارے باطنی پردے ہٹ گئے اور ہم نے اللہ کے قرب کو باطن میں محسوس کیا اور انشراح صدر حاصل کیا۔ تفسیر روح البیان
مفسر قرآن حضرت علامہ فضل شاہ آیت وسیلہ کی تفسیر اس طرح بیان فرماتے ہیں: جو اللہ تعالی کی طرف رجوع کر رہا ہو اور خوف و حزن سے نجات دینے کا مرتبہ رکھتا ہو وہ وسیلہ ہے۔ جو حال پر معیار ہوتا ہے اور قرب الہی کے لیے آسرا ہوتا ہے۔ یہی وسیلہ وصال کا درواذہ ہوتا ہے کہ رضا الہی اس کے علاوہ کسی طرح بھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ قول پاک ہے: اس وسیلہ سے، عمل کی اصلاح ہو گی تو اسی وسیلہ کی نسبت سے اور یکسوئی کا شرف بھی اسی وسیلہ کی نسبت سے حاصل ہو گا۔ اس وسیلہ کو پا لینے کے لیے اپنی پسند کو چھوڑنا بڑا کام ہے اور اللہ کی راہ میں یہ جہاد اکبر کیا جائے تو فلاح حاصل ہو گی ۔ تفسیر فاضلی
حضرت پیر جسٹس کرم شاہؒ اس آیت وسیلہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: سالکان راہ طریقت نے وسیلہ سے مراد مرشد لیا ہے پس حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے لیے مجاہدہ سے پہلے تلاش مرشد از بس ضروری ہے۔ تفسیر ضیاء القرآن
آیت مبارکہ نمبر11
اس کی راہ چل جو میری طرف رجوع لایا۔سورۃ لقمٰن، پ ۲۱، آیت ۱۵
اس آیت کی تفسیر میں حضرت سید محمد نعیم الدین مراد آبادی فرماتے ہیں کہ اس سے سیدنا حضور نبی کریمﷺ اور آپ کے صحابہ کرامؓ کی راہ مراد ہے۔ اور اسی راستہ کو مذہب سنت وجماعت کہتے ہیں۔ خزائن العرفان
حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ سبیل سے مراد دین ہے اور مَنْ اَنَابَ سے مراد سیدنا حضور نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ ہیں۔جبکہ عطاء نے سیدنا حضرت ابن عباسؓ کا قول نقل کیا ہے کہ اس سے سیدنا ابوبکرصدیقؓ کی ذات مراد ہے کیونکہ آپؓ کی رہنمائی سے بہت بڑے بڑے صحابہ کرامؓ مسلمان ہوئے تھے۔ تفسیر مظہری
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب انابت کی راہ چلنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا سب کا ترک کرنا اور چھوڑنا اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے لو لگانا اور شدتِ محبت سے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی طرف متوجہ ہونا صرف اہل انابت کا طریقہ ہے۔ اہل انابت تو اللہ تعالیٰ کی قربت و معرفت کو عشق مصطفےٰﷺ کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہو کر تلاش کرتے ہیں۔جیساکہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے ذات مصطفے کریمﷺ کے عشق میں خود کو فنا کر دیا اور بقا ابدی پالی۔ آقا کریمﷺ کی توجہات اتحادیہ کو نورانیت نے آپؓ کو اِنَّ اللہ مَعَنَا (یعنی اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے)کے مقام تک پہنچا دیا۔ سیدنا ابوبکرصدیقؓ ہوں یا سیدنا مولائے علی شیر خداؓ وہ اہل طریقت کے مختلف سلاسل کے امام و پیشوا ہیں۔ان اشخاص کے راستہ کو اپنانے کا حکم ہے ان حضرات کے طریقوں میں آج بھی نور نبوت کے انوارات کی وہ نایاب روشنی موجود ہے جو حجابات باطنیہ کو دور کرنے اور ظلمت کو نورانیت میں بدلنے کا واحد راستہ ہے۔ اس راستہ پر چل کر ہی انسان توحید و رسالت کی حلاوت و خوشبو حاصل کر کے ایمان حقیقی کی نعمت سے لذت آشنائی پاتا ہے اور صف اولیاء میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ جب تک طریق صوفیاء میں داخل ہو کر نور نبوت سے نور چینی نہ کی جائے ایمان غیبی کو ایمان شہودی کا درجہ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ آقا کریمﷺ نے فرمایا کہ میرے سینہ میں جو کچھ تھا وہ میں نے ابوبکر صدیقؓ کے سینہ میں ڈال دیا۔ لہذا اہلسنت ہی اہل نور ہیں اور اہل سنت وجماعت وہی ہیں جو عشق مصطفےٰﷺ میں گم ہیں۔ نور مجسمﷺ کے نور اور نورانیت کے منکر کس طرح اہل سنت و جماعت ہو سکتے ہیں اور وہ کبھی بھی صاحب باطن اور صاحب نور نہیں ہو سکتے ان کا دعوٰی توحید و رسالت صرف الفاظ کی حد تک ہے۔ آج وقت ہے ہم اپنے قلوب کو ٹٹولیں آیا کہ وہاں رحمانیت کے انوارات جلوہ گر ہیں اور حیات باطنیہ سے ہم انشراخ صدرکی نعمت حاصل کر چکے ہیں اور اپنے سینہ میں محبت ذات الہیہ کی تڑپ رکھتے ہیں اور صفات الہیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہیں یا ہم اپنے قلب غافل میں شیطان کو بٹھائے ہوئے ہیں اور نفس امارہ کی گرفت میں ہیں۔
سیدی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقیؒ فرماتے ہیں کہ جب تک نفس امارہ تزکیہ کے ذریعے مطمئنہ نہ ہو جائے انسانی عبادات نفس کی لذت کے لیے ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے خالص نہیں ہو سکتیں۔ وہ عبادت جو رغبت جنت یا خوف دوزخ کے تحت ہو تی ہے فی الحقیقت وہ عبادت اپنی عبادت ہے۔ یہ شخص اب تک تو اپنی اغراض کی بندش میں ہے۔ تیرا دعوٰی عشق ربانی جھوٹ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر ۷۷