سواد اعظم کی حقیقت اور اہلسنت و جماعت کی اصل
|صلی اللہ علیک یا رسول اللہ
وسلم علیک یا حبیب اللہ
الحمد للہ ، اللہ تعالی رب العزت کی جتنی بھی حمد و ثناء کی جائے اور شکر بجا لایا جائے کم ہے کہ اس ذات نے نے ہمیں اولا مسلمان پیدا کیا اور خصوصا اپنی حبیب کریم رؤف الرحیم ﷺ کی امت میں پیدا فرمایا۔ ان تمام نعمتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے اپنا خصوصی فضل و کرم فرمایا اور اہلسنت و جماعت کی طرف ہماری رہنمائی فرماتے ہوئے اولیاء کرام کی صحبت عطا فرمائی۔ اسی صحبت کی بدولت انسان ایمان غیبی کو شہودی کے درجے تک لے جاتا ہے۔ دوستوں آپ سوچ رہے ہو گی کہ اہل سنت کیا چیز ہے؟ حالانکہ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ ہم سب مسلمان ہیں یہ تفرقے تو صرف روٹی روزی کے لیے ہیں۔ ان کی اصل کچھ نہیں۔ بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ سب کے سب ٹھیک ہیں۔ حالانکہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ سب ٹھیک ہوں بھی پھر بھی وہ ایک جگہ اکھٹے نہ ہو پاتے ہوں۔ ضرور ان میں کچھ نہ کچھ فرق ہے کہ جس کو دیکھتے ہوئے وہ ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔
آئیے قرآن کریم اور احادیث نبویﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اور مفسرین کرام اور اولیاء امت کے تعلیمات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ آیا اہل سنت نام کی کوئی چیز موجود بھی ہے اور سواد اعظم کسے کہتے ہیں۔ تاہم میری گزارش ہو گی کہ اس مضمون کو اصلاحی نظر سے دیکھا جائے اور تعصب کو قریب بھی نہ آنے دیا جائے اور پورا مضمون کھلے دل و دماغ سے پڑھا جائے۔
آقا کریم ﷺ کی امت آخری امت ہے اور حبیب اللہﷺ کی امت ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی نے اس امت پر خصوصی کرم و مہربانی فرمائی ہے اور اسے کمالات سے نوازا ہے۔ علماء کرام نے اس امت کی بہت سی شانیں بیان کی ہیں تاہم میرے نزدیک سب سے بڑی شان تو حضور نبی کریمﷺ کی ذاتِ مقدس ہے اس کے مقابلے میں تو تمام نعمتیں و مہربانیاں تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ اس امت کی فضیلت کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۔ سورۃ آل عمران آیت نمبر ۱۱۰
ترجمہ: تم بہترین (امت) ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں۔
اس آیت مقدسہ کی تفسیر میں حضرت بہز بن حکیمؓ بواسطہ اپنے والد دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپﷺ اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں کہ تم ستر امتوں کو مکمل کرنے والے ہو اور اللہ تعالی کے نزدیک ان سب سے بہتر اور معزز ہو۔ سنن ترمذی کتاب التفسیر صفحہ ۶۷۲ رقم الحدیث ۳۰۰۱، ابن ماجہ کتاب الزہد باب صفۃ امۃ محمد رقم الحدیث ۴۲۸۷، مشکوۃ رقم الحدیث ۶۲۸۵
سواد اعظم اور اہلسنت و جماعت کیا ہے؟
حبیب کریمﷺ کی امت کی فضیلتوں و عظمتوں میں ایک عظمت یہ بھی ہے کہ اس امت پر اللہ تعالی نے خصوصی فضل کیا جس کی بدولت یہ امت گمراہی و ضلالت پر اتفاق نہیں کرے گی۔ چنانچہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ تَعَالَی عَنْھُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہﷺ اِنَّ اللہَ لَا یَجْمَعُ اُمَّتِیْ عَلَی ضَلَالَۃٍ وَیَدُ اللہِ مَعَ الجَمَاعَۃِ وَمَنْ شَذَّ شَذَّ اَلَی النَّارِ۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ تعالی کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا تو وہ آگ کی طرف جدا ہوا۔ ترمذی کتاب الفتن رقم الحدیث ۲۱۶۷، مشکوۃ رقم الحدیث ۱۷۳
اس حدیث مباکہ میں صراحتا موجود ہے کہ یہ امت اللہ تعالی کے فضل و کرم سے گمراہی و ضلالت پر جمع نہیں ہو گی اور دوسری بات یہ کہ جماعت پر اللہ تعالی کا ہاتھ ہے اور جوجماعت سے الگ ہوا تو وہ جہنم میں جائے گا۔ یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس جماعت کا ذکر ہے اس سے مراد کون سی جماعت ہے اور بعض روایات میں سواد اعظم کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے تو جاننا ضروری ہے کہ سواد اعظم کسے کہتے ہیں؟ اس جماعت اور سواد اعظم کے بارے میں چند روایات پیش خدمت ہیں تاکہ اس جماعت و سواد اعظم کی اہمیت اجاگر ہو جائے اور اسے سمجھنے کے لیے رغبت پیدا ہو اور اس کی حقیقت آشکار ہو۔چند احادیث طیبہ پیش خدمت ہیں۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ بیشک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی پس اگر تم ان میں اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کا ساتھ اختیار کرو۔ سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب السواد الاعظم رقم الحدیث ۳۹۵۰
یہاں سب سے بڑی جماعت کا ذکر ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ آقا کریمﷺ کے دور سے لیکر اب تک ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہی ہے یعنی وہ سب سے بڑی جماعت تھی۔ فتنے اور فرقے آتے رہے اور جاتے رہے جو مخصوص وقت کے لیے اور مخصوص لوگوں تک محدود رہے تاہم اس جماعت نے ہمیشہ سے ان کا رد کیا اور حق پر قائم رہے۔ یعنی ہمیں اپنے اصلاف کے عقائد کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قرون اولی سے لیکر آج تک جن عقائد پر تمام اصلاف متفق ہیں وہی صحیح عقائد ہیں اور ہر دور میں ان پر قائم لوگ ہی اس بڑی جماعت کے حامل لوگ تھے اور اسی جماعت کو اپنانے کا حکم ہے۔
حضرت حارث اشعریؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی رحمتﷺ نے فرمایا اللہ تعالی نے مجھے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے جماعت کا ساتھ، نصیحت سننا، فرمانبرداری اختیار کرنا، ہجرت کرنا اور اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا، پس جو شخص جماعت سے ایک بالشت برابر بھی الگ ہواتو اس نے اسلام کا قلاوہ (پٹہ) اپنے گلے سے اتار دیا جب تک کہ وہ جماعت کی طرف لوٹ نہیں آتا۔ صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث ۱۸۹۵، مستدرک للحاکم رقم الحدیث ۴۰۴، معجم الکبیر رقم الحدیث ۳۴۳۱
سیدنا ابو ذر غفاریؓ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا دو ایک سے بہتر اور تین دو سے بہتر ہیں اور چار تین سے بہتر ہیں۔ پس تم پر لازم ہے کہ جماعت کے ساتھ رہو یقینا اللہ تعالی میری امت کو ہدایت کے سوا کسی شے پر اکھٹا نہیں کرے گا۔ مسند احمد رقم الحدیث ۲۱۲۹۳، ابن عساکر رقم الحدیث ۷۶۳۳
حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا بیشک بنی اسرائیل ۷۱ فرقوں میں تقسیم ہو گئی تھی اور میرے امت ۷۲ فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، وہ سب کے سب دوذخ میں جائیں گے سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے۔سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب افتراق الامم رقم الحدیث ۳۹۹۳، مسند امام احمد رقم الحدیث ۱۲۰۲۸
سواد اعظم اور جماعت اہل سنت مفسرین کرام اور اولیاء عظام کی تعلیمات کی روشنی میں
مذکورہ بالا احادیث مقدسہ میں سواد اعظم اور جماعت کی اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ اس جماعت اور سواد اعظم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ذیل میں مفسرین کرام اور اولیاء امت کی تعلیمات کی روشنی میں جماعت اہل سنت اور سواد اعظم کی وضاحت پیش خدمت ہے۔
سند المفسرین شیخ المحدثین حضرت امام ملا علی قاری حنفیؒ
پس اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس جماعت سے مراد اہلسنت و جماعت ہی ہے۔ آپؒ مزید لکھتے ہیں کہ اور فرقہ ناجیہ اہلست ہی ہیں۔ مرقاۃ المفاتیخ جلد نمبر۱صفحہ ۲۴۸
امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقیؒ
آپ فرماتے ہیں کہ اہلسنت و جماعت ہی فرقہ ناجیہ ہے اور ان بزرگوں کی اتباع کے بغیر نجات متصور نہیں، اگر بال برابر بھی مخالفت ہے تو خطرہ ہی خطرہ ہے اور یہ بات کشف الہام صریح سے یقین کے درجہ تک پہنچ چکی ہے اس میں غلطی کا احتمال نہیں تو کس قدر خوش نصیب ہے وہ شخص جسے ان کی متابعت کی توفیق مل گئی۔ مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ دوم جلد نمبر ۱ صفحہ ۱۷۳ مکتوب ۵۹
شیخ احمد سرہندیؒ ایک جگہ مزید فرماتے ہیں کہ نجات کا راستہ اہلسنت و جماعت کی متابعت ہے۔ اقوال میں بھی افعال میں بھی اور احوال و فروع میں بھی۔ کیونکہ نجات پانے والا فرقہ صرف یہی ہے۔ باقی تمام فرقے زوال اور ہلاکت کے کنارے کھڑے ہیں۔ آج کسی کے علم میں یہ بات آئے یا نہ آئے لیکن کل قیامت ہر ایک جان لے گا مگر اس وقت جاننا بے سود ہو گا۔مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ دوم صفحہ ۱۹۱ مکتوب ۶۹
امام ربانی ایک جگہ مزید لکھتے ہیں کہ عقل مندوں پر سب سے اول فرض ہے کہ اپنے عقائد کو علمائے اہلسنت و جماعت کے عقائد کے موافق درست کریں۔ مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ چہارم صفحہ ۵۷۰مکتوب ۲۶۶
امام ابو شکور محمد بن سعید سالمیؒ
حضرت امام ابو شکور محمد بن سالمیؒ حضرت داتا گنج بخشؒ کے ہم عصر ہیں۔ آپؒ لکھتے ہیں کہ بہرحال اہلسنت و جماعت سے الگ ہونا بدعت و گمراہی ہے اور بدعت و گمراہی والا دوذخیوں میں سے ہوگا۔ اس پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْ۔آل عمران آیت نمبر ۱۰۵
ترجمہ: اور ان جیسے نہ ہونا جو آپس میں پھٹ گئے۔
اور حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: عنقریب میری امت میں ۷۳ فرقے ہوں گے سوائے ایک کے سب دوذخی ہیں تو وہ ایک اہلسنت و جماعت ہے۔
سواد اعظم (بڑی جماعت) کے اصول رسول اللہﷺ کے اصحاب، ان کے پیر و تابعین و تبع تابعین ہیں۔ جیسے حضرت ابو سعید خدری، حسن بن ابو سعید بصری، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہؒ وغیرہ اور ان کے شاگردوں میں سے جنہوں نے ان کی پیروی کی جیسے امام ابو یوسف، امام محمد بن حسین شیبان، امام زفر، امام حسن بن زیاد، داؤد طائی، وغیرہ تھے۔
اور فقہاء دین سے جس نے ان کی پیروی کی اور رسول اللہﷺ کے زمانے سے آج تک کہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت اور انہوں نے صحابہ کرامؓ اور ان کے علاوہ ایک جماعت کے زبان اور ہاتھوں سے دین کو بغیر کسی تنازع اور اختلاف کے لیا، پھر یہ اس بات پر دلیل ہے کہ اہلسنت و جماعت یہی مذکورہ شخصیات ہیں۔ یعنی صحابہ کرام، آئمہ و محدثین اور آئمہ میں سے جنہوں نے ان کی پیروی کی۔ یعنی جو سواد اعظم کے نقش قدم پر چلے۔ تمہید امام ابو شکور سالمی صفحہ ۳۸۰ تا ۳۸۱
حاصل کلام
قرآن کریم کی تعلیمات، احادیث نبویﷺ کے حوالہ جات و عبارات آئمہ سے واضح ہوا کہ جماعت سے مراد اہلسنت و جماعت ہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری جماعت مراد نہیں ہے۔ اگرچہ کوئی دوسری جماعت لاکھ دعوی کرے کہ اس جماعت سے وہ مراد ہیں لیکن جب اس مدعی جماعت کو مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی کے میزان پر رکھ کر دیکھیں گے تو ان کے دعوی کا بطلان واضح ہو جائے گا۔ اس میزان کی کسوٹی پر فقط اہلسنت و جماعت ہی پوری اترتی ہے۔
اسی طرح سواد اعظم سے مراد بھی اہلسنت و جماعت ہی ہے درحقیقت سواد اعظم اہلسنت و جماعت ہی کا مترادف ہے اور اسے کثرت کی وجہ سے سواد اعظم کا نام دیا گیا۔
اللہ تعالی سمجھ کی توفیق دے اور ہماری رہنمائی فرمائے۔ وما توفیقی الا باللہ