احسان، تصوف و طریقت اور اس کی شرعی حیثیت

تعارف و ابتدائی کلمات

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو کا مکمل احاطہ کرتا ہے اور اسے گزارنے کی رہنمائی کرتا ہے۔ کوئی انسان جب پہلی بار لفظ احسان، تصوف و طریقت سنتا ہے تو اس کے دماغ میں سوالات آتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں

What is Tasawwuf (tasawof)? What is difference between Tasawwuf, Ihsan, Tareekat and Haqeeqat? What is salook? What is sufism and its beliefs? Who founded tasawwuf and Sufism? Tasawwuf and sufism is included in Islam, Quran and Hadith? and many more like above said questions…

مندرجہ بالا سوالات کے جواب کے لیے پیر طریقت محمد اجمل خان مصطفائی نقشبندی چشتی قادری سہروردی اویسی مدظلہ العالی کی تصوف اور صوفی ازم کے متعلق اجمالی و تعارفی ویڈیو کے لیے یہاں کلک کریں۔ تحریر مطالعہ کے لیے نیچے پیج کو ملاحظہ فرمائیں۔


ضروری گزارشات پیش خدمت ہیں

مندرجہ بالا تمام سوالات کے جواب میں عرض ہے کہ شریعت مطہرہ کچھ اجزاء کا مجموعہ ہے۔ ان تمام اجزاء کا علم ہونا اور ان پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے تبھی جا کر کہیں آخرت میں ثمرات مل سکتے ہیں۔ ان بنیادی اجزاء میں عقائد،  عبادات، معاملات و معاشرت اور  احسان و تصوف شامل ہیں۔ تصوف، صوفی ازم، احسان، طریقت ایک ایسا اہم جزو ہے جو باقی تمام اجزاء پر برائے راست اثر انداز ہوتا ہے۔ برائے وضاحت چند گزارشات ذیل میں کی جاتی ہیں۔


اسلام میں عقائدکی حقیقت

دین اسلام میں عقائد بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ عقیدہ توحید پہلا اور بنیادی رکن ہے اور تمام عقائد کی جڑ اور اصل ا لاصول ہے جبکہ اعمال صالحہ دین کی فرع ہیں۔ درخت کی بقا فروع سے نہیں بلکہ جڑ سے ہوتی ہے۔ 


توحید کیا ہے؟
عقیدہ توحید میں تصوف کی اہمیت

اللہ کی توحید سے مراد ہے اس چیز کا اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالی اپنی ذات، صفات اور افعال میں واحد و یکتا ہے۔ ان میں اس کا کوئی شریک ہے نہ کوئی اس کا مشابہ۔ اللہ تعالی اپنی تمام صفات الوھیت اور کمالات حقیقہ سے متصف ہے اور اپنی ان صفات و کمالات میں یکتا اور واحد و لاشریک ہے۔ جب انسان توحید پر ایمان لاتا ہے تو حضور نبی کریمﷺ کی رسالت کے اقرار کے ساتھ ہی دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے۔ اب ایک مسلمان کو صورت ایمان تو حاصل ہو گئی مگر جب تک ایک مسلمان توحید و رسالت کے باطنی حقائق و معارف اور مشاہدات و احوال سے عملی واقفیت اور آگاہی حاصل نہیں کر لیتا تب تک حقیقی ایمان سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ توحید کے اسرار و رموز اور سیدنا حضور نبی کریمﷺ کے کمالات اس وقت مسلمان پر منکشف ہوتے ہیں جب انسان حیات باطنیہ سے مشرف ہوتا ہے کیونکہ مسلمان کو اصل توحید کے احوال اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب مسلمان کے قلب سے حق سبحانہ و تقدس کے ماسوا ہر چیز غائب ہو جائے یعنی تکلف سے بھی کوئی چیز قلب میں لانا چاہے تو پھر بھی قلب میں غیر اللہ کے لیے جگہ نہ ہو۔ توحید، قلب کو غیر حق سبحانہ و تعالی سے آزاد کرنے کا نام ہے۔ سیدنا حضور نبی کریمﷺ کے نورانی دور سے لیکر آج تک حضرات اصحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور بعد کے تمام اولیاء کرام ؒ نے قرب الہی عزوجل اور باطنی تزکیہ کے لیے روحانی اسلام یعنی احسان و تصوف کو اپنایا جو کہ شریعت اسلامیہ کا ایک اہم جزو ہے۔


عقیدہ توحید اور اس کا تصوف و صوفی ازم کے ساتھ تعلق کے بارے میں
پیر طریقت محمد اجمل خان مصطفائی نقشبندی چشتی قادری سہروردی اویسی مدظلہ العالی کا ویڈیو درس دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


عقیدہ رسالت کی صورت کو حقیقت میں بدلنے کے لیے تصوف، طریقت اور صوفی ازم کا کردار، اہمیت اور ضرورت
پیر طریقت محمد اجمل خان مصطفائی نقشبندی چشتی قادری سہروردی اویسی مدظلہ العالی کا ویڈیو درس دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


دین اسلام میں عبادات کی اہمیت و حقیقت
وضاحت بابت صوفی ازم و تصوف

بے مثل و بے کیف خدائے جل سلطانہ کی صحیح عبادات اس وقت میسر آتی ہے جب اللہ کے غیر کی بندگی سے آزاد ہو کر صرف اور صرف ذات احد عزوجل کو قبلہ توجہ بنا لیا جائے جیسا کہ سیدنا حضور نبی کریمﷺ نے حضرت جبرائیل ؑ کو احسان کے بارے میں جواب ان لفظوں میں مرحمت فرمایا :تم اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کرو گویا اسے دیکھ رہے ہو اور اگر نہ دیکھ سکو تو(یہ کیفیت تو رہنی چاہیے کہ) وہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ صحیح بخاری
عبادات کی یہ کیفیت صرف تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب سے پیدا ہوتی ہے۔ تصوف و احسان کے سلوک سے گزر کر ہی نفس امارہ نفس مطمئنہ بنتا ہے اور قلب اللہ تعالی کے غیر سے بالکل خالی ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا: نماز نہیں ہوتی مگر حضور قلبی کے ساتھ۔
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عبادات کی حقیقت تصوف کے اپنانے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔

علامہ محمد اقبال نے ایسے ہی سجدہ قرب و وصال کے متعلق فرمایا

وہ ایک سجدہ جس سے روحِ زمین کانپ جاتی ہے
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب


معاملات اور معاشرت میں روحانیت و تصوف کا کردار

عام مسلمان نفس امارہ اور قلب فاسدہ کی موجودگی میں حرص و لالچ شہوت و غضب ، خود نمائی و تکبر حب مال و جاہ وغیرہ جیسی بہت سی صفات رزیلہ کا حامل ہوتا ہے۔ انسان کے قلب و نفس کے یہ منفی رجحانات معاشرے میں سماجی و معاشرتی ،معاشی و سیاسی بگاڑ اور عدم توازن کا سبب بنتے ہیں۔ انسان غفلت کے پردوں میں خواہشات نفسانیہ کی پیروی کر کے ان کو معبود کا درجہ عملاََ دے دیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں اشارہ ہے: کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔ سورۃ الفرقان ، پ ۱۹، آیت۴۳

تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے بعد ان مذکورہ منفی رجعانات و رویوں میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے اپنے مبارک دور میں نفس مطمئنہ کے حامل افراد پر مشتمل مثالی معاشرہ قائم فرمایا۔قرون اولی میں اسلام کے بہترین دور کی بنیاد معاشرے کے صالحین افراد کی کثرت تھی وہ متوازن مزاج کے حامل ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال بھی رکھتے تھے اور فطرتی طور پر خوبیوں اور محاسن کا پیکربن چکے تھے مگر آج تزکیہ و تصفیہ کے روحانی عمل سے دور ہونے کی وجہ سے معاشرے میں ہر سطح پر بگاڑ ہے۔
حجتہ ا لاسلام حضرت امام غزالی ؒ فرماتے ہیں احسان سے مراد تصوف و طریقت ہے جو اسلام کا ضروری حصہ ہے۔ احیاء العلوم
حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں۔ شریعت اور حقیقت ایک دوسرے کا عین ہیں ۔ مکتوب ۵۹ جلد اول


اخلاقیا ت میں تصوف کا کردار

سیدنا حضور کریمﷺ نے ارشاد فرمایا اپنے اندر خدائی اخلاق پیدا کرو۔ 
اس کیفیت کے حاصل ہونے کے بارے میں حضور غوث الثقلین غوث الاعظمؒ اپنی کتاب سرالاسرار میں فرماتے ہیں کہ جب انسان بشری صفات کا لباس اتار کر صفات الہیہ کے فیضان کا لباس پہن لیتا ہے تو یہ ہی ولایت کا فائدہ اور نتیجہ ہوتا ہے۔
اس مختصر گفتگو کا مقصد یہ کہ عقائد، عبادات، معاملات اور معاشرت سب ہی میں روحانی اسلام یعنی تصوف کا کردار بنیادی اور ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف تفاسیر مثلا جلالین، روح البیان، روح المعانی اور تفسیر مظہری میں تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کو فرض عین قرار دیاگیا ہے کیونکہ یہ معرفت ربانی کا ذریعہ ہے۔


روحانی اسلام کیا ہے؟

امام ربانی مجدد الف ثانی الشیخ احمد سرہندیؒ کے مطابق شریعت اسلامیہ کو علم عمل اور اخلاص میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔مکتوبات امام ربانی جلد اول مکتوب ۵۹
قرآن و حدیث کا سارا نظام علم و عمل جبکہ سیدنا حضور نبی کریمﷺ کے سینہ اطہر اور وجود مبارک پر انوارات الہیہ اور احوال ربانیہ کا جو نزول ہوا اور آپﷺ نے وہ انوارات اور فیوضات اہل بیت اطہارؓ اور صحابہ کرامؓ کے باطن میں منتقل فرما دیئے وہ اخلاص یا روحانی اسلام کہلاتے ہیں۔ جس طرح قرآن و حدیث کتب کے اندر آج تک محفوظ چلا آ رہا ہے با لکل اسی طرح روحانی انوارات و فیوضات حضرات صحابہ کرامؓ اور پھراولیاء کرامؒ کے واسطہ سے سینہ در سینہ منتقل ہو رہے ہیں اور آج تک محفوظ ہیں۔


روحانیت کی ابتداء اور انتہا کیا؟

نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ صحیح بخاری
روحانیت کے سفر کی ابتداء نیت کو اخلاص کے نور سے منور کرنے سے ہوتی ہے جس سے اعمال کے اندر اخلاص کی روح پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح بندہ مومن کے روحانی سفر کی انتہا مشاہدہ حق کے مقام پر پہنچنے کا نام ہے۔ 
بمطابق حدیث مبارک تو اسطرح اللہ تعالی کی عبادت کر جیسا کہ تو رب کو دیکھ رہا ہے ۔صحیح بخاری
یعنی نیت درست کرنے کے بعد عبادت اسطرح کرنے کی سعادت حاصل ہو جائے جیسا کہ رب تعالیٰ کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ 
امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی الشیخ احمد سرہندیؒ کے ارشادات کا خلاصہ یہ ہے کہ طریقت و معرفت (یعنی روحانی اسلام) ایمان غیبی کو ایمان شہودی کے درجہ تک پہنچانا ہے۔ تقلید اور علوم استدلالیہ کو علوم کشفیہ کی تصدیق فراہم کرنا ہے اس کا مقصد احکام فقہیہ کے ادا کرنے میں آسانی پیدا کرنا ہے اور نفس امارہ کی پیدا کردہ رکاوٹ اور مشکل کو دور کرنا ہے۔ جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ طریق صوفیہ حقیقت میں علوم شرعیہ کا خادم ہے۔ تصوف و طریقت کو اختیار کرنے کا مقصد یہ کہ تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے ذریعے اعمال کو اخلاص کے نور سے منور کیا جائے تا کہ وہ بارگاہ الہی میں شرف قبولیت کے لائق ہو سکیں یعنی اسلام مجازی کو اسلام حقیقی میں بدلنے کا نام تصوف و روحانیت ہے۔جیسا کہ قرآن میں اس طرف اشارہ ہے اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ ایمان لے آؤ ۔ سورۃ النسآء، پ ۵، آیت ۱۳۶
یعنی اے صورت ایمان رکھنے والے مسلمانوں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ حقیقی ایمان لے آؤ۔اس آیت کریمہ میں صورت ایمان کو حقیقت ایمان میں بدلنے کا حکم دیا گیا ہے جو کہ تز کیہ نفس اور تصفیہ قلب کے ذریعے فنا و بقاء کے بعد حاصل ہوتا ہے۔سلوک کا یہ تمام سفر جو ایمان اوراسلام کی صورت کو حقیقت عطا کرتا ہے تصوف و طریقت کے راستہ کو اپنانے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔جس پر نبی کریم ﷺ کے مبارک دور سے لے کر آج تک عرب و عجم کے تمام اولیاء کرام ؒ عمل پیرا رہے ہیں اور اسی طریق تربیت کو اپنا کر درجہ احسان تک پہنچے ہیں۔ یہ ایک ایسی روشن اور عملی حقیقت ہے جو اولیاء امت کے طرز عمل سے ثابت شدہ ہے لہذا اس کا رد ناممکن ہے۔



Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *