شیخ طریقت حضرت علامہ ابو حامد محمد اجمل خان مصطفائی نقشبندی چشتی قادری سہروردی اویسی
تعارف
پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ ابو حامد محمد اجمل خان مصطفائی نقشبندی چشتی قادری سہروردی اویسی ایک عظیم روحانی پیشوا اور عالم دین ہیں۔ آپ کی کوششوں سےکئی ایک نوجوانوں کو راہ حق اور عقیدہ اہل سنت و جماعت کی پہچان نصیب ہوئی اور آپ نے ان کے دلوں میں عشق مصطفےﷺ کی شمع روشن کی۔ آپکو مشہور سلاسل اربعہ یعنی نقشبندی، چشتی، قادری اور سہروردی میں خلافت حاصل ہے اور آپ سالکین طریقت اور حق کے متلاشیوں کی تربیت میں ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔آپ سنت نبویﷺ کے پیکر ہیں اور آپ کی زندگی ایک نمونہ تقلید کی حیثیت رکھتی ہے۔
آپ مدظلہ العالی کا اصل نام محمد اجمل خان جبکہ عرفی نام خان جی ہے۔ آپ پٹھانوں کے ایک قبیلہ سرکانی سے تعلق رکھتے ہیں۔ عقیدہ میں آپ اہلسنت و جماعت ماتریدی بریلوی ہیں۔ فقہ میں آپ امام اعظم ابو حنیفہ حضرت نعمان بن ثابتؒ کی تقلید کے قائل ہیں۔ آپ کو لقب جو کہ آپ کے پیر و مرشد حضرت خواجہ خواجگان شیخ کامل غوث الزمان حضرت محمد لعل نقشبندی مدظلہ العالی نے عطا کیا وہ حنفی اور استاد طریقت ہے۔
ولادت باسعادت
پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ ابو حامد محمد اجمل خان مصطفائی نقشبندی چشتی قادری سہروردی اویسی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضلع ہری پور کے ایک مشہور گاؤں چھوہر شریف میں 20 اکتوبر 1966 کو پیدا ہوئے۔
کنیت و تخلص
آپ مدظلہ العالی کی کنیت ابو حامد ہے جبکہ تخلص مصطفائی ہے۔ آپ کا تخلص مصطفائی آقا کریمﷺ کے حرم محبوبیت کے ساتھ غلامانہ نسبت و تعلق کو تحدیث نعمت کے طور پر بیان کرنا ہے۔ یعنی حرم اقدس و انور کی طرف متوجہ عاصی سگ کشکول طلب پھیلائے کھڑا ہے تا کہ فضل و کرم اور نعمت و برکت کو سمیٹ سکے۔ جیسے کے حدیث نبویﷺ میں ہے کہ: قال النبیﷺ انما ان قاسم و اللہ یعطی۔
ولدیت
آپ کے والد گرامی محترم شیر افضل خان صاحب نمبر دار نقشبندی ہیں۔
حالات و واقعات
پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ ابو حامد محمد اجمل خان مصطفائی نقشبندی چشتی قادری سہروردی اویسی کے بارے میں انتہائی ضروری معلومات پیش کی جا رہی ہیں۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ رسمی اور عمومی انداز شہرت پانے کے لیے کراماتی واقعات و حالات لکھنا پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ اصل چیز اللہ تعالی رب العزت سبحانہ تعالی اور آقا کریمﷺ کی محبت و قربت ہے اور یہ روحانی سلاسل میں سلوک طے کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ آج کے دور میں روحانی سلوک و مراتب طے کروانے والے اولیاء کرام نایاب ہیں۔ اکثر زبانی کرامتوں اور وظیفوں سے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ جس سے تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔
نسبت کی وجہ سے سرکار کریمﷺ کی مہربانیاں
یہ خصوصی عطا و کرم کے معاملات پر مشتمل ہے۔ اس حرم مصطفویﷺ کے اسرار و معاملات کو منظر عام پر لانے کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ اس حرم مصطفویﷺ کی عطاؤں کی بدولت پیر طریقت محمد اجمل خان مصطفائی نقشبندی چشتی قادری سہروردی اویسی کے مریدوں کو اللہ تعالی رب العزت نے ذاکر لطائف عطا فرمائے ہیں۔ اس حرم مقدس کی نسبت و قربت ہی ایک ایسی عظیم نعمت ہے جس سے مریدوں و سالکین کو انشراح صدر کی نعمت عظمی عطا ہوتی ہے اور فنا و بقا کی منازل طے کرتے ہوئے مقربین کے درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ جیسے کہ حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اصلاح قلب جو تصیح نیت کی بنیاد سے روحانی سفر شروع کیا جاتا ہے اَن تَعبُد اللہ کانک تَرَاہ کی منزل احسان تک اللہ تعالی رب العزت سبحانہ تعالی کے خصوصی فضل و کرم سے پہنچایا جاتا ہے۔
تصوف و روحانیت کا عظیم ترین مقصد اور نفع یہ ہوتا ہے کہ ایمان غیبی ایمان شہودی کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ یعنی ایمان مجازی، ایمان حقیقی میں ترقی کر کے پہنچ جاتا ہے جو نزع کے وقت شیطان کے حملہ سے محفوظ ہوتا ہے اور خاتمہ ایمان کی قطعی و یقینی دلیل ہے۔ سلوک و بیعت کا حاصل یہ ہے کہ علوم استدلالیہ کو علوم کشفیہ کی تائید و تصدیق حاصل ہو جاتی ہے۔ حرم محبوبیتﷺ سے جو کہ اقدس اطہر مقام و بارگاہ ہے لطافت و نورانیت کی دل آویز و دلکش خوشبوئیں نصیب ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ روحانی سلسلہ شروع کرنے سے پہلے انسان حجابات باطنیہ میں محجوب ہوتا ہے اور کثافت باطنیہ کی وجہ سے اللہ تعالی رب العزت سبحانہ تعالی اور سرور کونینﷺ کی بارگاہ عالیہ سے قربت و نسبت پانے کے بالکل قابل نہیں ہوتا۔ ایک طرف نورانیت و لطافت کی انتہا ء الانتہا ہوتی ہے جب کہ دوسری طرف کثافت و تاریکی کی گہرائیاں اور باطنی موت کا شکار عام انسان ہوتا ہے پس اس روحانی دوری کو قربت میں بدلنا ہی مقصد تصوف ہے۔
حصول علم
آپ نے ابتدائی اسلامی تعلیم جس میں ناظرہ قرآن مجید اور تجویز القرآن، علوم قرآن و حدیث، تفسیر و فقہ مقامی علماء کرام سے حاصل کیے اور اس کے ساتھ دنیاوی تعلیم میں ایم اے اسلامیات، ایم اے پولیٹیکل سائنس، ایم اے پاکستان سٹڈیز اور ایم ہسٹری کیا۔ آپ پر اللہ تعالی رب العزت سبحانہ تعالی کا خصوصی فضل و کرم اور من و احسان ہوا اور علوم لدنیہ کی نعمت آقا کریمﷺ کے وسیلہ جمیلہ سے عطا ہوئی ۔ الحمدو الشکر اللہ تعالی۔
شوق علم و مطالعہ
شوق علم کے تحت آپ نے ایک لائبریری قائم کی ہوئی ہے جس میں تفاسیر احادیث فقہ تصوف علم الکلام تاریخ سیرت کے موضوعات پر کتب کثیرہ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ آپ پر اللہ تعالی رب العزت سبحانہ تعالی کا انتہائی فضل و کرم ہے کہ اس وحدہ لاشریک ذات اقدس نے اپنی اور اپنے حبیب کریم ﷺ کی محبت کی عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا ہے۔ لہذا ذوق مطالعہ اسی مرکز و محور کے گرد گھومتا ہے۔ خواہ وہ اس محبت کی لذات کو پانا ہو یا اس کے مظاہر کائنات میں مشاہدہ کرنا ہو۔ یعنی ذوق مطالعہ کا انداز کچھ اس طرح ہے کہ محبوب کریمﷺ کے وجود انور کی رفعتوں و عظمتوں کو سمجھنا اور کمالات مصطفویہﷺ کے تمام پہلوؤں کا ہمہ وقت متلاشی رہنا اور پھر اس محبوب کریمﷺ کے خصائص و شمائل کی معطر وادیوں میں صبح و شام کرنا ہے جو کہ طریق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہے۔ شاید ان کی اسی عقیدت مندانہ طلب و جستجو کو دیکھتے ہوئے ہی محبوب کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ اے ابو بکر میری حقیقت کو میرے رب کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ لہذا جس محبوب کریمﷺ کی حقیقت جو کہ حقیقت الحقائق ہے کسی کے بس کی بات نہیں کہ اس کی معرفت حقیقی حاصل کر سکے تو اس خالق و مالک اللہ تعالی رب العزت سبحانہ تعالی و تقدس کی ذات بحت اور صفات جلیلہ اور اسماء الحسنی کا ادراک کس کے بس کی بات ہے وہاں حیرانگی ہی حیرانگی ہے اور وہ پاک ذات عقل سے وراء الوراء ہے۔
خانقاہ نقشبندیہ چشتیہ قادریہ اویسیہ
مریدین و سالکین کی روحانی تربیت کے لیے باقاعدہ خانقاہِ نقشبندیہ چشتیہ قادریہ اویسیہ چھوہر شریف میں موجود ہے۔ حیات قلبی و روحی کی عظیم نعمت سے سرفراز ہونے کے لیے لوگ ملک کے طول و عرض سے تشریف لاتے ہیں۔ سنت نبویہﷺ کے مطابق فیضان صحبت سے اپنے باطنی لطائف کو ذاکر کرتے ہیں اور اپنے مرشد شیخ کامل حضرت قبلہ محمد اجمل خان مصطفائ نقشبندی چشتی قادری سہروردی اویسی کے سینہ سے نور چینی بذریعہ توجہ و انعکاس اور اتصال کرتے ہیں۔ اس روحانی ہسپتال میں روحانی امراض کا علاج مسنون طریقہ پر کیا جاتا ہے۔ خانقاہ روحانیہ کے ساتھ جامع مسجد نور اور جامعہ اسلامیہ حنفیہ بھی موجود ہے۔
خلافت و اجازت
قدوۃ العارفین ، محرم اسرار، قطب ارشاد، صدر العلماء، مخزن علوم لدنیہ شیخ المشائخ پیر محمد لعل خان نقشبندی قادری چشتی سہروردی اویسی کے دست مقدس پر بیعت کی اور تمام سلاسل طریقت کی خلافت عطا ہوئی۔ اسی طرح آپ عمل اویسیت کے حامل مراد لوگوں میں بھی شامل ہیں۔ جیسا کہ طریق اولیاء میں مراد لوگوں کو سابقین اولیاء عظام اور خواجگان سلاسل روحانیہ متوجہ ہو کر خصوصی فیوضات اور انوارات سے نوازتے ہیں اور اسرار و معارف اور علوم و حقائق کی وراثت منتقل فرماتے ہیں اور یہ عمل اویسیت کہلاتا ہے چنانچہ یہی خصوصی معاملہ شیخ کامل پیر طریقت محمد اجمل خان مصطفائ نقشبندی چشتی قادری سہروردی اویسی کے ساتھ بھی ہوا ہے۔
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین
چنانچہ سب سے پہلے خلیفہ شاہ جیلان حضرت غوث الزمان عبد الرحمان چھوہروی متوجہ ہوئے اور اپنے فیوضات اور علوم لدنیہ سے نوازا اور فرمایا کہ میرے فرزند قبلہ سند المجذوبین حضرت فضل سبحان قادریؒ کے حصے کی روحانیت و خلافت تیرے سپرد ہے۔ اسی طرح سلطان الہند امام العاشقین حضرت خواجہ سید معین الدین چشتی اجمیری المعروف خواجہ غریب نوازؒ نے اپنی خصوصی توجہات سے فیض یاب فرمایا اور اپنی طرف سے خلافت عطا فرمائی اور ساتھ یہ عظیم بشارت بھی دی کہ تیرے سینہ میں تمام سلاسل اولیاء جمع ہیں اور اسی روحانی صحبت میں اپنی مسند مبارک پر بھی بیٹھنے کا حکم فرمایا جس پر خواجہ اجمیریؒ خود تشریف فرما تھے اس روحانی سفر پر لے کر جانے والے سراپا اسرار و احوال، جبل استقامت قائد الاولیاء حضرت خواجہ بختیار کاکی چشتیؒ تھے جو تشریف لائے اور فرمایا آؤ میرے ساتھ خواجہ اجمیر شریف کی خدمت میں چلتے ہیں۔ اسی طرح محسن برصغیر، برھان اسلام ، سلطان المشائخ حضرت علی بن عثمان المعروف داتا علی ہجویریؒ لاہوری نے اپنی زبان مقدس سے لقمہ نکال کر منہ میں ڈالا اور روحانی توجہات سے نوازا۔ اسی طرح سند السالکین امام الراسخین حضرت شیخ احمد سرہندی نقشبندی قادری چشتی سہروردی اویسیؒ نے اپنی روحانی صحبت میں بیٹھنے کی سعادت بخشی اور فیض یاب فرمایا۔ پھر عمدۃ المشفقین قدوۃ المقربین سید بہاؤالدین نقشبندی ؒ بخاری نے انتہائی شفقت فرماتے ہوئے اپنے انوارات و معارف منتقل فرمائے اور ساتھ ہی اپنے خصوصی قرب اور سرپرستی کی خوشخبری عطا فرمائی اور شریعت اور طریقت کی ذمہ داریاں سپرد فرمائیں۔ اسی طرح شیخ الانس والجن، حجۃ الاسلام، شہزادہ اہلبیت سید الاولیاء الشیخ کبیر عبد القادر جیلانی المعروف غوث الاعظم نے اپنے سامنے بٹھا کر فیوضات و انوارات سے لبریز و منور کر دیا۔ آپؒ کے فیض کا اپنا ہی خصوصی بے مثل انداز تھا۔جیسے آفتاب کی شعاعیں انتہائی قربت سے کسی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ امام العشاق، سراپا وفا، برھان محبین سیدی حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ نےقدم بوسی اور نسبت خاص سے مشرف فرمایا۔
ھذا من فضل ربی۔
باقی صحابہ کرام، اہلبیت اطہار رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین اور شاہ کونین،صاحب قاب قوسین، امام المرسلین، رحمت لامکاں، خاتم رسولاں، مبداء علماں، مقتداں محموداں، نور نوریاں، معدن ایماناں سراسراراں، آفتاب انواراں سیدنا حبیب کریمﷺ سے نسبت و قربت، شفقت و عنایت کے معاملات ناقابل تحریر ہیں اور روحانی اسرار و حقائق میں امانتداری و رازداری ضروری ہوتی ہے۔ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اللہ تعالی رب العزت سبحانہ تعالی اپنے حفظ و امان میں رکھے اور نفس و شیطان کے شر سے محفوظ فرمائے آمین بجاۃ نبی کریمﷺ۔ کیونکہ طلب دنیا کے لیے شہرت عظیم فتنہ اور نقصان ایمان و اسلام ہے جبکہ مقصود و مطلوب اللہ تعالی کی رضا اور امت مسلمہ کی اصلاح و بہتری ہو تو پھر یہ عمل مستحسن و مقبول ہے۔ اللہ تعالی ہی علیم بذات الصدور ہے۔ وہ پاک ذات ہماری نیت اور سوچ سے خوب آگاہ ہے۔
ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشآء۔ وما توفیقی الا باللہ العظیم۔
تصانیف و تالیفات
تصوف کا مکمل انسائیکلو پیڈیا
انوار مصطفویہﷺ
روضہ محبوب کریم ﷺ
روح اسلام
علامہ و مشائخ کے تاثرات
شیخ المشائخ قطب ارشاد قبلہ حضرت محمد لعل خان المعروف استاد صاحب مبارک مدظلہ العالی نے فرمایا جس طرح حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کے سلسلہ میں خان خاناں عبد الرحیم خانؒ کی حیثیت تھی بعینہ میرے سلسلے میں محمد اجمل خان حنفی کی وہی حیثیت ہے اور مزید فرمایا کہ اس کے مریدوں کی حالت بہت اچھی ہے اور اس کے طریق تربیت سے مطمئن ہوں اور حضرت استاد صاحب مبارک نے انہیں حنفی اور استاد طریقت کے لقب سے نوازا۔
شیخ الحدیث والتفسیر پروفیسر ڈاکٹر صدیق علی چشتی صاحب فیکلٹی آف اصول الدین انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد و مہتمم جامعہ غوثیہ، معینیہ پشاور نے یوں فرمایا کہ انہیں مقربین بارگاہ ایزدی میں سے ایک ہمارے ممدوح اور زیر نظر کتاب انوار مصطفویہﷺ کے مصنف عالم باعمل صوفی باصفا حضرت الشیخ محمد اجمل خان مصطفائی نقشبندی چشتی قادری اطال اللہ عمرہ ہیں۔
مصنف محقق پروفیسر ڈاکٹر علامہ محمد اعظم رضا تبسم نے شیخ طریقت پیر محمد اجمل خان مصطفائی نقشبندی چشتی قادری سہروردی اویسی کی کتاب تصوف کا مکمل انسائیکلوپیڈیا پر تاثرات تحریر کرتے ہوئے فرمایا کہ پیر محمد اجمل خان صاحب مصطفائی کوئی بازاری مصنف اور پیر نہیں ہیں بلکہ ان کی گفتگو، ان کے انداز، ان کی پیار اور مٹھاس بھری باتیں سب اس بات کی دال ہیں کہ جو کچھ اس کتاب میں درج ہے وہ عمل کے آب زم زم سے غسل دے کر لکھا گیا ہے پھر حضورﷺ کے عشق میں اسی محبت کو پکایا گیا ہے پھر وہ تحفہ سرکار کی عظیم بارگاہ اقدس میں پیش کیا گیا ہے وہاں سے اس کتاب کی منظوری ہوئی ہے تب یہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچا ہے۔ موصوف پیر طریقت محمد اجمل خان صاحب مصطفائی کی کتاب انوار مصطفویہﷺ پر تقریظ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ درویش منشاء صوفی، راہ طریقت کے اسی مسافر نے آقا کریمﷺ کی شان لاریب میں ایک منفرد انداز میں قلم اٹھایا ہے۔ اس رواں صدی کے پہلے نصف عرصہ میں چمنستان سیرت میں ایک خوبصورت و معطر، گل سرسبز کا اضافہ انوار مصطفویہﷺ کی صورت میں ہوا ہے۔ جس کا لفظ لفظ روشنی، حرف حرف خوشبو اور سطر سطر اجالا ہے۔ یہ ایک عاشق رسولﷺ کا والہانہ لگاؤ اور اظہار عقیدت ہے۔ قلب و دماغ کی اثر انگیزی اور عشق و مستی میں سرشار قلم سے صفحہ سیرت سے صفحہ گلکاری ہے۔ مصنف نے الفاظ نہیں موتی پروئے ہیں۔ جملے نہیں ہیرے تراشے ہیں کہ سرمایہ حیات ہی یہی ہے۔ جب بارگاہ ایزدی سے ایسے عظیم کام کرنے کی توفیق مرحمت ہوتی ہے تو قلم ایسے الفاظ کا چناؤ کرتا ہے جس کے مطالعے سے تاریک دل روشن ہو جاتے ہیں۔ مردہ روحیں زندہ ہو جاتی ہیں اور حیات قلبی نصیب ہو جاتی ہے۔
صاحبزادگان
صاحبزادہ احمد رضا خان جو کہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں بی ایس اصول الدین میں آخری سمسٹر میں زیر تعلیم ہے۔
صاحبزادہ حامد یاسین خان نقشبندی قادری جو کہ بنوں میڈیکل کالج خیبر پختونخواہ میں ایم بی بی ایس تھرڈ ایر کا طالب علم ہے۔
مزید معلومات اور رہنمائی کے لیے یہاں کلک کریں۔ یا رابطہ والا پیج وزٹ کریں۔